سولر پینل صرف بجلی بنانے والے نہیں ہوتے بلکہ ان کی مدد سے دھوپ سے مختلف چیزیں، جیسے پانی وغیرہ بھی گرم کیا جاتا ہے۔ اس تحریر میں ہم صرف ان سولر
بجلی بنانے والے سولر پینل کو پی وی یعنی فوٹو وولٹیک پینل کہا جاتا ہے۔ سولر پینل دراصل سولر سیل کا مجموعہ ہوتا ہے، جس میں متعدد سولر سیل جوڑ کر ایک پینل تیار کیا جاتا ہے۔ سولر سیل کی عمومی عمر ۲۰ سے ۲۵ سال تک ہوتی ہے، لیکن یہ نہیں کہ اس عرصے کے بعد سولر سیل کام کرنا چھوڑ دیتا ہے، بلکہ اس کی کارکردگی کسی حد تک کم ہو جاتی۔ سولر سیل کی بنیادی طور پر تین اقسام ہیں، مونو کرسٹلائن سیل، پولی کرسٹلائن سیل اور تھِن فلم/ایمارفیس سیل۔
مونو کرسٹلائن، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، اس کا ایک سیل سیلیکون کے ایک کرسٹل سے تیار ہوتا ہے۔ یہ سیل عموماً کالے رنگ کا ہوتا ہے اور تھوڑی روشنی میں بھی کام کرتا ہے۔ مونو کرسٹلائن سیل پر پڑنے والی روشنی میں سے ۱۸ فیصد جذب کر کے اس سے بجلی بنا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سولر سیل میں یہ سب سے مہنگا ہوتا ہے اور سب سے حساس بھی سجھا جاتا ہے۔
مونو کرسٹلائن سولر سیل میں گرمی کی شدت برداشت کرنے کی کم طاقت ہوتی ہے اور عام طور پر یہ ۲۵ ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت تک اپنی مکمل کارکردگی دکھاتا ہے۔ درجہ حرارت کی یہ پیمائش ہر سولر پینل کیلئے مختلف ہو سکتی ہے اور ہر سولر پینل پر این او سی ٹی یعنی نومینل آپریٹنگ سیل ٹیمپریچر کی صورت میں لکھی ہوتی ہے۔
مونوکرسٹلائن سولر پینل کے کچھ سیل اگر زیادہ دیر تک روشنی میں ہوں اور اسی وقت میں کچھ سیل پر سایہ ہو، تو پھر سولر سیل جلد خراب ہونے کا خدشہ پیدا ہوجاتا ہے۔ یعنی ایک وقت میں یا تو سولر پینل کے تمام سیل روشنی میں ہوں یا پھر تمام سائے/اندھیرے میں ہوں۔
پولی کرسٹلائن بھی اپنے نام کے مطابق ہے یعنی اس کا ایک سیل سیلیکون کے بہت سے کرسٹلز کو ملا کر تیار کیا جاتا ہے۔ پولی کرسٹلائن سیل عام طور پر نیلے رنگ کا ہوتا ہے اور کہیں کہیں اس میں دوسرے رنگوں کی لہریں یا دھبے بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔
پولی کرسٹلائن اپنے اوپر پڑنے والی روشنی میں سے تقریباً ۱۵۵ فیصد جذب کر کے اس سے بجلی بناتا ہے اور یوں اگر اس سیل کی جسامت مونوکرسٹلائن جتنی ہو تو پھر مونو کرسٹلائن سیل کی نسبت یہ سیل کچھ کم بجلی پیدا کرے گا۔
پولی کرسٹلائن سیل کی قیمت مونو کرسٹلائن کے برابر یا کچھ کم ہوتی ہے۔ یہ سیل کچھ کم حساس ہوتا ہے اور مونو کرسٹلائن کی نسبت گرمی کی شدت بھی کچھ زیادہ برداشت کرسکتا ہے۔ پولی کرسٹلائن عام طور پر ۴۵ ڈگری سینٹی گریڈ تک ٹھیک کام کرتا ہے، لیکن ہر سولر پینل کیلئے درجہ حرارت کی یہ پیمائش بہرحال مختلف ہو سکتی ہے۔ مونو کرسٹلائن کی طرح پولی کرسٹلائن کا بھی ایک وقت میں کچھ حصہ روشنی میں اور کچھ حصہ سائے میں ہو تو سیل خراب ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔
سولر سیل کی تیسری قسم کو تھن فلم یا ایمارفیس سیل بھی کہا جاتا ہے اور کچھ لوگ اسے سولر فلم بھی کہتے ہیں۔ ایمارفیس سیل سیلیکون کرسٹلز کے بجائے ایمارفیس سیلیکون سے بنایا جاتا ہے۔ یہ سیل عام طور پر سیاہ رنگ میں ہوتا ہے۔ تھن فلم سیل اپنے اوپر پڑنے والی روشنی میں سے ۱۰ فیصد جذب کر کے اس سے بجلی تیار کرتا ہے اور یوں اپنے حجم کی مناسبت سے سب سے کم بجلی بناتا ہے۔
تھن فلم یا ایمارفیس سیل سب سے سستا ہوتا ہے، لیکن اس میں گرمی کی شدت برداشت کرنے کی طاقت بھی سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس سیل کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ مونو اور پولی کرسٹلائن کی طرح اگر اس کا کچھ حصہ ایک وقت میں روشنی میں اور کچھ حصہ سائے یا اندھیرے میں ہو تو یہ خراب نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ تھن فلم سیل لچک دار ہوتا ہے، یوں بہت سی ایسی جگہوں پر استعمال ہو سکتا ہے جہاں دیگر دونوں اقسام کارآمد ثابت نہیں ہوتیں۔
سولر پینل کی مختلف اقسام کے حوالے سے کم یا زیادہ بجلی بنانے سے مراد یہ ہے کہ اگر تینوں اقسام کے سولر سیل ایک ہی حجم کے ہوں تو پھر کوئی کم اور کوئی زیادہ بجلی بنائے گا۔ یوں بھی مارکیٹ میں فروخت ہونے والے سولر پینل فی واٹ کے حساب سے دستیاب ہوتے ہیں، اس لئے سولر سیل کی قسم چاہے کوئی بھی ہو، واٹ پورے ہی ملیں گے، فرق صرف اتنا ہے کہ ایک واٹ کیلئے مونوکرسٹلائن کا سائز سب سے چھوٹا اور ایمارفیس سیل کا سب سے بڑا ہوگا۔
اس سے پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ کوئی بھی سولر پینل کتنے درجہ حرارت تک بہتر کارکردگی دیتا ہے یہ معلومات ہر سولر پینل پر این او سی ٹی یعنی نومینل آپریٹنگ سیل ٹیمپریچر کی صورت میں لکھی ہوتی ہے۔ اس پیمائش کی بہ نسبت درجہ حرارت جیسے جیسے زیادہ ہوتا جاتا ہے، اسی طرح سولر پینل کی کارکردگی متاثر ہوتی چلی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ درجہ حرارت کی وجہ سے کسی سولر پینل کی کارکردگی کس حد تک متاثر ہو گی یہ بھی سولر پینل پر ٹیمپریچر کوفیشینٹ کی صورت میں لکھا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی سولر پینل کا این او سی ٹی ۲۵ ڈگری سینٹی گریڈ ہے اور ٹمپریچر کوفیشیئنٹ منفی صفر اشاریہ ۴۸ فیصد ہے، تو یہ سیل ۲۵ ڈگری سینٹی گریڈ تک بالکل ٹھیک کام کرے گا، لیکن جیسے ہی درجہ حرارت میں اضافہ شروع ہوگا اسی نسبت سے ۲۵ ڈگری سے اوپر والی ہر ڈگری کے ساتھ سولر پینل کی صفر اشاریہ ۴۸ فیصد کارکردگی متاثر ہوگی۔
یہ بات قابل غور ہے کہ سولر پینل کیلئے درجہ حرارت سے مراد ہوا یا ماحول کا درجہ حرارت نہیں بلکہ ایسے میں سولر سیل کا اپنا درجہ حرارت دیکھا جاتا ہے۔ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ ماحول کا درجہ حرارت عام طور پر کم ہوتا ہے، لیکن اسی ماحول میں پڑی ہوئی کسی چیز کا درجہ حرارت زیادہ ہو جاتا ہے، جیسے ہم خود تو دھوپ میں کھڑے ہو سکتے ہیں، لیکن اسی دھوپ میں زیادہ دیر رکھے گئے لوہے کو ہاتھ بھی نہیں لگا سکتے۔
سولر پینل کو پاکستان کے تناظر میں دکھا جائے تو یقیناً میدانی علاقوں کیلئے، جہاں گرمیوں میں درجہ حرارت ۳۵ سے ۴۵ ڈگری تک ہوتا ہے، پولی کرسٹلائن بہتر ہے۔ دوسری جانب ایسے علاقے جہاں زیادہ گرمی پڑتی ہو اور درجہ حرارت اکثر ۴۵ ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر رہتا ہو، ان کیلئے تھن فلم زیادہ موزوں ہے۔
شمالی علاقہ جات یعنی پہاڑی اور ٹھنڈے موسم والے زیادہ تر علاقوں کیلئے مونو کرسٹلائن سولر سیل بہتر رہتا ہے۔ یاد رہے درجہ حرارت زیادہ ہونے سے سولر سیل خراب نہیں ہوتے، بلکہ بجلی بنانے میں کمی ہو جاتی ہے اور جب درجہ حرارت کم ہوگا تو یہی سولر سیل بجلی بھی زیادہ بنانے لگیں گے۔
پاکستان کے عام میدانی علاقوں میں گرمیوں کے ایک ایسے دن میں کہ جب تیز دھوپ ہو، اگر مونوکرسٹلائن اور پولی کرسٹلائن کی مجموعی بجلی کا موازنہ کیا جائے تو تقریباً برابر ہی ہوگی۔ دراصل صبح طلوع آفتاب کے وقت مونو کرسٹلائن سیل زیادہ بجلی بناتا ہے اور پولی کرسٹلائن کم، لیکن جیسے جیسے گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے، اسی نسبت سے مونو کرسٹلائن سیل کی کارکردگی بھی متاثر ہوتی چلی جاتی ہے، جبکہ ایسی صورتحال میں پولی کرسٹلائن سیل زیادہ بجلی پیدا کرتا ہے۔ اسی طرح غروب آفتاب کے وقت مونو کرسٹلائن پھر سے زیادہ بجلی بنانا شروع کردیتا ہے۔
یوں اگر دیکھا جائے تو مونو اور پولی، دونوں اقسام سے بجلی کی مجموعی پیداوار تقریباً برابر ہی رہتی ہے۔ البتہ موسم سرما اور ٹھنڈے علاقوں میں سال بھر کے دوران مونو کرسٹلائن زیادہ سودمند ثابت ہوتا ہے۔ ماہرین کا بہرحال مشورہ یہی ہے کہ عام میدانی علاقوں کیلئے پولی کرسٹلائن اور ٹھنڈے علاقوں کیلئے مونو کرسٹلائن زیادہ موزوں ثابت ہوتے ہیں۔
مونو کرسٹلائن کی خریداری میں قدرے احتیاط کی ضرورت ہے، کیونکہ لوٹ مار میں سرگرم کچھ تاجر مونو اور تھن فلم کے ملتے جلتے رنگوں سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔ گو کہ دونوں اقسام کی ساخت میں فرق ہوتا ہے، لیکن تھن فلم کو مارکیٹ میں بھیجنے سے پہلے اس پر سفید اور چمکدار اسٹیکر کچھ اس انداز سے لگائے جاتے ہیں کہ بظاہر یہ مونو کرسٹلائن کے سیل ہی نظر آتے ہیں اور چمکدار لائنیں ٹیبنگ وائر محسوس ہوتی ہیں۔
اگر آپ ۱۰۰۰ واٹ کا پینل خریدنا چاہتے ہیں تو پھر چاہے مونو کرسٹلائن ہو یا ایمارفیس یعنی تھن فلم، دونوں سے مکمل ۱۰۰ واٹ ہی ملیں گے، لیکن احتیاط اس لئے ضروری ہے کہ تھن فلم نہ صرف جگہ زیادہ گھیرتی ہے بلکہ مونوکرسٹلائن کی نسبت انتہائی سستی بھی ہوتی ہے۔ کہیں یہ نہ ہو کہ آپ مونو کرسٹلائن کی قیمت میں تھِن فلم خرید لیں۔
بجلی بنانے والے سولر پینل کو پی وی یعنی فوٹو وولٹیک پینل کہا جاتا ہے۔ سولر پینل دراصل سولر سیل کا مجموعہ ہوتا ہے، جس میں متعدد سولر سیل جوڑ کر ایک پینل تیار کیا جاتا ہے۔ سولر سیل کی عمومی عمر ۲۰ سے ۲۵ سال تک ہوتی ہے، لیکن یہ نہیں کہ اس عرصے کے بعد سولر سیل کام کرنا چھوڑ دیتا ہے، بلکہ اس کی کارکردگی کسی حد تک کم ہو جاتی۔ سولر سیل کی بنیادی طور پر تین اقسام ہیں، مونو کرسٹلائن سیل، پولی کرسٹلائن سیل اور تھِن فلم/ایمارفیس سیل۔
مونو کرسٹلائن، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، اس کا ایک سیل سیلیکون کے ایک کرسٹل سے تیار ہوتا ہے۔ یہ سیل عموماً کالے رنگ کا ہوتا ہے اور تھوڑی روشنی میں بھی کام کرتا ہے۔ مونو کرسٹلائن سیل پر پڑنے والی روشنی میں سے ۱۸ فیصد جذب کر کے اس سے بجلی بنا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سولر سیل میں یہ سب سے مہنگا ہوتا ہے اور سب سے حساس بھی سجھا جاتا ہے۔
مونو کرسٹلائن سولر سیل میں گرمی کی شدت برداشت کرنے کی کم طاقت ہوتی ہے اور عام طور پر یہ ۲۵ ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت تک اپنی مکمل کارکردگی دکھاتا ہے۔ درجہ حرارت کی یہ پیمائش ہر سولر پینل کیلئے مختلف ہو سکتی ہے اور ہر سولر پینل پر این او سی ٹی یعنی نومینل آپریٹنگ سیل ٹیمپریچر کی صورت میں لکھی ہوتی ہے۔
مونوکرسٹلائن سولر پینل کے کچھ سیل اگر زیادہ دیر تک روشنی میں ہوں اور اسی وقت میں کچھ سیل پر سایہ ہو، تو پھر سولر سیل جلد خراب ہونے کا خدشہ پیدا ہوجاتا ہے۔ یعنی ایک وقت میں یا تو سولر پینل کے تمام سیل روشنی میں ہوں یا پھر تمام سائے/اندھیرے میں ہوں۔
پولی کرسٹلائن بھی اپنے نام کے مطابق ہے یعنی اس کا ایک سیل سیلیکون کے بہت سے کرسٹلز کو ملا کر تیار کیا جاتا ہے۔ پولی کرسٹلائن سیل عام طور پر نیلے رنگ کا ہوتا ہے اور کہیں کہیں اس میں دوسرے رنگوں کی لہریں یا دھبے بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔
پولی کرسٹلائن اپنے اوپر پڑنے والی روشنی میں سے تقریباً ۱۵۵ فیصد جذب کر کے اس سے بجلی بناتا ہے اور یوں اگر اس سیل کی جسامت مونوکرسٹلائن جتنی ہو تو پھر مونو کرسٹلائن سیل کی نسبت یہ سیل کچھ کم بجلی پیدا کرے گا۔
پولی کرسٹلائن سیل کی قیمت مونو کرسٹلائن کے برابر یا کچھ کم ہوتی ہے۔ یہ سیل کچھ کم حساس ہوتا ہے اور مونو کرسٹلائن کی نسبت گرمی کی شدت بھی کچھ زیادہ برداشت کرسکتا ہے۔ پولی کرسٹلائن عام طور پر ۴۵ ڈگری سینٹی گریڈ تک ٹھیک کام کرتا ہے، لیکن ہر سولر پینل کیلئے درجہ حرارت کی یہ پیمائش بہرحال مختلف ہو سکتی ہے۔ مونو کرسٹلائن کی طرح پولی کرسٹلائن کا بھی ایک وقت میں کچھ حصہ روشنی میں اور کچھ حصہ سائے میں ہو تو سیل خراب ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔
سولر سیل کی تیسری قسم کو تھن فلم یا ایمارفیس سیل بھی کہا جاتا ہے اور کچھ لوگ اسے سولر فلم بھی کہتے ہیں۔ ایمارفیس سیل سیلیکون کرسٹلز کے بجائے ایمارفیس سیلیکون سے بنایا جاتا ہے۔ یہ سیل عام طور پر سیاہ رنگ میں ہوتا ہے۔ تھن فلم سیل اپنے اوپر پڑنے والی روشنی میں سے ۱۰ فیصد جذب کر کے اس سے بجلی تیار کرتا ہے اور یوں اپنے حجم کی مناسبت سے سب سے کم بجلی بناتا ہے۔
تھن فلم یا ایمارفیس سیل سب سے سستا ہوتا ہے، لیکن اس میں گرمی کی شدت برداشت کرنے کی طاقت بھی سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس سیل کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ مونو اور پولی کرسٹلائن کی طرح اگر اس کا کچھ حصہ ایک وقت میں روشنی میں اور کچھ حصہ سائے یا اندھیرے میں ہو تو یہ خراب نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ تھن فلم سیل لچک دار ہوتا ہے، یوں بہت سی ایسی جگہوں پر استعمال ہو سکتا ہے جہاں دیگر دونوں اقسام کارآمد ثابت نہیں ہوتیں۔
سولر پینل کی مختلف اقسام کے حوالے سے کم یا زیادہ بجلی بنانے سے مراد یہ ہے کہ اگر تینوں اقسام کے سولر سیل ایک ہی حجم کے ہوں تو پھر کوئی کم اور کوئی زیادہ بجلی بنائے گا۔ یوں بھی مارکیٹ میں فروخت ہونے والے سولر پینل فی واٹ کے حساب سے دستیاب ہوتے ہیں، اس لئے سولر سیل کی قسم چاہے کوئی بھی ہو، واٹ پورے ہی ملیں گے، فرق صرف اتنا ہے کہ ایک واٹ کیلئے مونوکرسٹلائن کا سائز سب سے چھوٹا اور ایمارفیس سیل کا سب سے بڑا ہوگا۔
اس سے پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ کوئی بھی سولر پینل کتنے درجہ حرارت تک بہتر کارکردگی دیتا ہے یہ معلومات ہر سولر پینل پر این او سی ٹی یعنی نومینل آپریٹنگ سیل ٹیمپریچر کی صورت میں لکھی ہوتی ہے۔ اس پیمائش کی بہ نسبت درجہ حرارت جیسے جیسے زیادہ ہوتا جاتا ہے، اسی طرح سولر پینل کی کارکردگی متاثر ہوتی چلی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ درجہ حرارت کی وجہ سے کسی سولر پینل کی کارکردگی کس حد تک متاثر ہو گی یہ بھی سولر پینل پر ٹیمپریچر کوفیشینٹ کی صورت میں لکھا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی سولر پینل کا این او سی ٹی ۲۵ ڈگری سینٹی گریڈ ہے اور ٹمپریچر کوفیشیئنٹ منفی صفر اشاریہ ۴۸ فیصد ہے، تو یہ سیل ۲۵ ڈگری سینٹی گریڈ تک بالکل ٹھیک کام کرے گا، لیکن جیسے ہی درجہ حرارت میں اضافہ شروع ہوگا اسی نسبت سے ۲۵ ڈگری سے اوپر والی ہر ڈگری کے ساتھ سولر پینل کی صفر اشاریہ ۴۸ فیصد کارکردگی متاثر ہوگی۔
یہ بات قابل غور ہے کہ سولر پینل کیلئے درجہ حرارت سے مراد ہوا یا ماحول کا درجہ حرارت نہیں بلکہ ایسے میں سولر سیل کا اپنا درجہ حرارت دیکھا جاتا ہے۔ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ ماحول کا درجہ حرارت عام طور پر کم ہوتا ہے، لیکن اسی ماحول میں پڑی ہوئی کسی چیز کا درجہ حرارت زیادہ ہو جاتا ہے، جیسے ہم خود تو دھوپ میں کھڑے ہو سکتے ہیں، لیکن اسی دھوپ میں زیادہ دیر رکھے گئے لوہے کو ہاتھ بھی نہیں لگا سکتے۔
سولر پینل کو پاکستان کے تناظر میں دکھا جائے تو یقیناً میدانی علاقوں کیلئے، جہاں گرمیوں میں درجہ حرارت ۳۵ سے ۴۵ ڈگری تک ہوتا ہے، پولی کرسٹلائن بہتر ہے۔ دوسری جانب ایسے علاقے جہاں زیادہ گرمی پڑتی ہو اور درجہ حرارت اکثر ۴۵ ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر رہتا ہو، ان کیلئے تھن فلم زیادہ موزوں ہے۔
شمالی علاقہ جات یعنی پہاڑی اور ٹھنڈے موسم والے زیادہ تر علاقوں کیلئے مونو کرسٹلائن سولر سیل بہتر رہتا ہے۔ یاد رہے درجہ حرارت زیادہ ہونے سے سولر سیل خراب نہیں ہوتے، بلکہ بجلی بنانے میں کمی ہو جاتی ہے اور جب درجہ حرارت کم ہوگا تو یہی سولر سیل بجلی بھی زیادہ بنانے لگیں گے۔
پاکستان کے عام میدانی علاقوں میں گرمیوں کے ایک ایسے دن میں کہ جب تیز دھوپ ہو، اگر مونوکرسٹلائن اور پولی کرسٹلائن کی مجموعی بجلی کا موازنہ کیا جائے تو تقریباً برابر ہی ہوگی۔ دراصل صبح طلوع آفتاب کے وقت مونو کرسٹلائن سیل زیادہ بجلی بناتا ہے اور پولی کرسٹلائن کم، لیکن جیسے جیسے گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے، اسی نسبت سے مونو کرسٹلائن سیل کی کارکردگی بھی متاثر ہوتی چلی جاتی ہے، جبکہ ایسی صورتحال میں پولی کرسٹلائن سیل زیادہ بجلی پیدا کرتا ہے۔ اسی طرح غروب آفتاب کے وقت مونو کرسٹلائن پھر سے زیادہ بجلی بنانا شروع کردیتا ہے۔
یوں اگر دیکھا جائے تو مونو اور پولی، دونوں اقسام سے بجلی کی مجموعی پیداوار تقریباً برابر ہی رہتی ہے۔ البتہ موسم سرما اور ٹھنڈے علاقوں میں سال بھر کے دوران مونو کرسٹلائن زیادہ سودمند ثابت ہوتا ہے۔ ماہرین کا بہرحال مشورہ یہی ہے کہ عام میدانی علاقوں کیلئے پولی کرسٹلائن اور ٹھنڈے علاقوں کیلئے مونو کرسٹلائن زیادہ موزوں ثابت ہوتے ہیں۔
مونو کرسٹلائن کی خریداری میں قدرے احتیاط کی ضرورت ہے، کیونکہ لوٹ مار میں سرگرم کچھ تاجر مونو اور تھن فلم کے ملتے جلتے رنگوں سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔ گو کہ دونوں اقسام کی ساخت میں فرق ہوتا ہے، لیکن تھن فلم کو مارکیٹ میں بھیجنے سے پہلے اس پر سفید اور چمکدار اسٹیکر کچھ اس انداز سے لگائے جاتے ہیں کہ بظاہر یہ مونو کرسٹلائن کے سیل ہی نظر آتے ہیں اور چمکدار لائنیں ٹیبنگ وائر محسوس ہوتی ہیں۔
اگر آپ ۱۰۰۰ واٹ کا پینل خریدنا چاہتے ہیں تو پھر چاہے مونو کرسٹلائن ہو یا ایمارفیس یعنی تھن فلم، دونوں سے مکمل ۱۰۰ واٹ ہی ملیں گے، لیکن احتیاط اس لئے ضروری ہے کہ تھن فلم نہ صرف جگہ زیادہ گھیرتی ہے بلکہ مونوکرسٹلائن کی نسبت انتہائی سستی بھی ہوتی ہے۔ کہیں یہ نہ ہو کہ آپ مونو کرسٹلائن کی قیمت میں تھِن فلم خرید لیں۔
No comments:
Post a Comment